جو اندھیری چھت پہ خیال ہیں انہیں روشنی میں اتار لے

جو اندھیری چھت پہ خیال ہیں انہیں روشنی میں اتار لے
یہ جو حسن ہے تری سوچ میں اسے شاعری میں اتار لے


اے سخن شناس جدید سن کوئی حرف تجھ سے نہ چھوٹ جائے
جو نہ مرثیہ کو قبول ہو اسے رخصتی میں اتار لے


تجھے زندگی کسی موڑ پر کوئی کام آئے تو فون کر
مرے نمبرات سنبھال کر کسی ڈائری میں اتار لے


ترے نام کو ترے دشمناں لب آسمان پہ پائیں گے
یہ جو گفتگو میں جنون ہے اسے خامشی میں اتار لے


ذرا فارسی کے امام سن میں زبان ہند میں ہوں تو کیا
میں ترے مزاج کا لفظ ہوں مجھے فارسی میں اتار لے


یہ جو اونچے اونچے مکان ہیں انہیں دیکھ کر نہ ملول ہو
ترا صبر و ضبط نصیب ہے دل مفلسی میں اتار لے


یہ یقین شرط یقین ہے وہ امین ہے وہ امین ہے
اے سعودؔ اس کو یقین سے رگ زندگی میں اتار لے