تہ داماں چراغ روشن ہے

تہ داماں چراغ روشن ہے
زیست میری بقا کا بچپن ہے


شکوۂ ظلم و جور کس سے کریں
آدمی آدمی کا دشمن ہے


ایک الاؤ ہے یہ دہکتا ہوا
تمہیں جس پر گمان گلشن ہے


پھنک رہا ہے چمن چمن لیکن
آپ فرما رہے ہیں ساون ہے


کون ہستی کے سلسلے کو بجھائے
ایک سے ایک دیپ روشن ہے


زندگی سے کہاں فرار سلامؔ
سینۂ مرگ میں بھی دھڑکن ہے