تباہی رقص کرتی ہے سدا جن کے اشاروں پر
تباہی رقص کرتی ہے سدا جن کے اشاروں پر
انہی کا باغ عالم میں تسلط ہے بہاروں پر
بلندی راس نہ آئے جنہیں وہ نیچے گرتے ہیں
یہی نظارہ ملتا ہے ہمیشہ آبشاروں پر
نشہ کوئی بھی ہو کچھ سوچئے دیتا نہیں رک کر
بڑا مشکل ہے رک جانا ڈھلانوں پر اتاروں پر
وہی پاتے ہیں گوہر جو اترتے ہیں سمندر میں
ملے گا کیا انہیں جو بیٹھ جاتے ہیں کناروں پر
جو گل ہوں تو اندھیرا ہو جو بھڑکیں آگ لگ جائے
بھروسہ کر لیا ہم نے کچھ ایسے ہی شراروں پر
فضائے عالم ہستی معطر ہے ہمیں سے آج
ہمارا ہی سدا سے قرض ہے آتی بہاروں پر
نہیں ہے اے رضاؔ فرزانگی کچھ علم پر موقوف
کہ غالب آ گئے دیوانے اکثر ہوشیاروں پر