ایسا ہے تیرے پیار کا سایہ
ایسا ہے تیرے پیار کا سایہ
جیسے فصل بہار کا سایہ
ان کے آنے کی ہے خبر دیتا
کارواں کے غبار کا سایہ
بے سبب تو نہیں ہے آنکھوں پر
دیکھیے یہ خمار کا سایہ
اس کو جنت سے کم نہیں دنیا
جس پہ ہے ماں کے پیار کا سایہ
مجھ کو جینے دے اور نہ مرنے دے
یہ ترے انتظار کا سایہ
کیا بگاڑے گا یہ جہاں اپنا
سر پہ ہے کردگار کا سایہ
آج کیوں اٹھ گیا زمانے سے
اے رضاؔ اعتبار کا سایہ