جو شجر دھوپ میں جلے ہوں گے
جو شجر دھوپ میں جلے ہوں گے
کیا ثمر دیں گے کیا پھلے ہوں گے
وہ جو فٹ پاتھ پر پلے ہوں گے
آخر انساں ہیں کچھ بھلے ہوں گے
میں نے مانا کہ ہوں گے مہر بلب
اشک آنکھوں سے تو ڈھلے ہوں گے
گردش وقت پھر مخالف چل
پھر جواں میرے حوصلے ہوں گے
تہہ میں ڈھونڈیں گے تو ملیں گے گہر
آزمائش کے مرحلے ہوں گے
ان گلوں کو چبھن کا کیا احساس
ساتھ کانٹوں کے جو پلے ہوں گے
درد سینے میں لازمی ہے رضاؔ
جب زمیں ہے تو زلزلے ہوں گے