تعمیر کائنات کے ساماں لئے ہوئے

تعمیر کائنات کے ساماں لئے ہوئے
آئی ہوں راز عالم امکاں لئے ہوئے


جاؤں کدھر میں کشتیٔ ارماں لئے ہوئے
ہر ساحل مراد ہے طوفاں لئے ہوئے


جلوہ نظر فریب ہے دنیا ہے دل فریب
ہر آئنہ ہے دیدۂ حیراں لئے ہوئے


خودبیں تو مرے شیوۂ تسلیم پر نہ جا
بیٹھی ہوں راز عالم امکاں لئے ہوئے


ہر قطرہ ہے تلاطم دریا کی یادگار
ہر ذرہ ہے نمود بیاباں لئے ہوئے


شان جنوں تو دیکھیے اپنے سروں پہ آج
پھرتے ہیں مجھ کو خار بیاباں لئے ہوئے


اللہ رے دعا لب زخم کا اثر
وہ خود ہی آ رہے ہیں نمکداں لئے ہوئے


پر داغ میرا دل رہا بزم نشاط میں
آیا ہزار شمع فروزاں لئے ہوئے


او بے نیاز دیکھ تری بزم ناز سے
جاتی ہوں عشق بے سر و ساماں لئے ہوئے


کلثومؔ کل وہ گزرے ہیں میرے قریب سے
آنکھوں میں اک شرارت پنہاں لئے ہوئے