برادران وطن سے
ملک کی حالت پہ سینوں سے دھواں اٹھتا نہیں
ساز دل خاموش ہیں شور فغاں اٹھتا نہیں
کس لئے آنکھوں سے طوفان نہاں اٹھتا نہیں
پھول روندے جا رہے ہیں باغباں اٹھتا نہیں
بے حسی کی انتہا ہے ہوش میں آتے نہیں
ذلتوں پر ذلتیں ہوتی ہیں شرماتے نہیں
شعلۂ احساس بجھتا ہے ہوا دے دو اسے
قومیت دم توڑتی ہے کچھ دوا دے دو اسے
ملک مٹنے کو ہے پیغام بقا دے دو اسے
مطمئن بیٹھے ہو دل سینے میں گھبراتا نہیں
قوم کے دم توڑنے پر بھی ترس آتا نہیں
سانس لے کر اس فضا میں روح گھبراتی نہیں
جوہر احساس خودداری کو شرم آتی نہیں
تم کو ناداری وطن کی خاک تڑپاتی نہیں
یہ غلامی کی بلا حیرت ہے کھا جاتی نہیں
زندگی کو دعوت صد مرگ دینا چاہئے
موت کی آغوش میں آرام لینا چاہئے
چھوڑ دو ناکامئ قسمت کے شکوے چھوڑ دو
کچھ بھی ہمت ہے تو یہ طوق و سلاسل توڑ دو
اوج کی جانب نگاہ شرمگیں کو موڑ دو
رفعت ماضی سے پھر تقدیر فردا جوڑ دو
سچ تو یہ ہے قوم کے بس تم علمبردار ہو
تا بہ کے یہ خواب غفلت سو چکے بیدار ہو