ناکامیٔ دل کلثومؔ کبھی تقدیر کو اپنی روئی نہیں
ناکامیٔ دل کلثومؔ کبھی تقدیر کو اپنی روئی نہیں
قربان میں اپنی ہمت کے سب سوئے مگر یہ سوئی نہیں
اے صبح قیامت کیا کہنا اس وعدۂ دید کے میں قرباں
وہ پردہ سے اب نکلے ہیں جب دیکھنے والا کوئی نہیں
گریاں ہے ابھی تک چشم فلک بلبل بھی برابر روتی ہے
بربادیٔ گلشن کے غم میں شبنم ہی اکیلی روئی نہیں
تو اپنے کو خود پیارا ہے یوں پیار تجھے سنسار سے ہے
ورنہ کسی کا چاہنے والا دنیا بھر میں کوئی نہیں
ڈر ہے یہ مجھے کہ خون ناحق رنگ نہ لائے محشر میں
خون میں ڈوبی آستیں اپنی اس نے ابھی تک دھوئی نہیں
اے ناقۂ لیلیٰ پردہ نشیں پھر نجد کے ذرے رقص میں ہیں
منزل حسن تو سامنے ہے کیا عشق کی منزل کوئی نہیں
جو ہونا تھا وہ ہو ہی چکا اب کہنے سے کیا حاصل ہے
یہ وقت دعا ہے اے ناصح یہ وقت نصیحت گوئی نہیں
خون عنادل دوڑ رہا ہے لالہ و گل کی رگ رگ میں
پھر بھی سارے باغ میں ہم آہنگ عنادل کوئی نہیں
وہ حسن کا منشا کیا سمجھے وہ رسم محبت کیا جانے
دولت صبر و سکون دل عشق میں جس نے کھوئی نہیں
منجدھار سے کشتی پار ہوئی ساحل پہ جب آئی ڈوب گئی
تقدیر تو سب کی ساتھی تھی تقدیر کا ساتھی کوئی نہیں