صورت اتر نہ جائے کہیں ماہتاب کی

صورت اتر نہ جائے کہیں ماہتاب کی
کہہ دو کہ بات جھوٹ ہے ان کے شباب کی


شام وصال سیج پہ شرمائے جوں دلہن
شرمائی یوں ہیں شاخ پہ کلیاں گلاب کی


پتھر اچھال دیجئے یوں دل کی جھیل میں
ورنہ امید رکھیے نہ مجھ سے جواب کی


منزل قریب آئی تو بھٹکا دیا گیا
ان رہبروں نے زندگی میری خراب کی


حالات نے بگاڑ دی واحدؔ کی شکل یوں
جیسے خراب جلد ہو اچھی کتاب کی