مجھ پہ مضراب تو ہے ساز کہاں سے لاؤں

مجھ پہ مضراب تو ہے ساز کہاں سے لاؤں
دل میں گھر کرنے کے انداز کہاں سے لاؤں


میرے گیتوں میں بھی پر کیف کشش ہے لیکن
ہو اثر جس میں وہ آواز کہاں سے لاؤں


میری ہر بات بتا دیتی ہیں میری آنکھیں
جو رہے دل میں ہی وہ راز کہاں سے لاؤں


انتہا ہے تو کوئی ابتدا لازم ہوگی
اپنے انجام کا آغاز کہاں سے لاؤں


میرے سینے میں بھی اڑنے کی للک ہے لیکن
توڑ دے پنجرا وہ پرواز کہاں سے لاؤں