دن ڈھلا بڑھنے لگیں پرچھائیاں

دن ڈھلا بڑھنے لگیں پرچھائیاں
پھر وہی غم پھر وہی تنہائیاں


جھلملائے جیسے لہروں پر کرن
آس لیتی دل میں یوں انگڑائیاں


پاؤں کی پازیب کے گھنگھرو تھے اشک
ٹوٹنے پر بج اٹھیں شہنائیاں


جب نگر کی دھوپ میں جلنا پڑا
یاد آئیں گاؤں کی امرائیاں


اب بھلا تنہا کہاں میں رہ گیا
ساتھ ہیں میرے مری رسوائیاں