پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں
پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں پر اس کی آنکھ میں سپنے سجا کے آئی ہوں میں کوزہ گر تو نہیں تھی مگر حقیقت ہے میں اس کی مرضی کا اس کو بنا کے آئی ہوں جسے بھی جانا ہو جائے چراغ جلتا ہوا بڑا کٹھن تھا اگرچہ بجھا کے آئی ہوں پلٹ تو آئی ہوں لیکن خموش دریا کو سلگتی پیاس کا قصہ سنا کے آئی ...