سورج سے کچھ کرنیں لے کر اپنا کام چلاتا ہے

سورج سے کچھ کرنیں لے کر اپنا کام چلاتا ہے
جانے پھر کیا بات ہے جس پر چاند بہت اتراتا ہے


اس کے ساتھ گزارا ماضی اب تک تنہا راتوں میں
یادوں کی سوغاتیں لے کر مجھ سے ملنے آتا ہے


اکثر خواب میں دکھنے والے ایک پرانے منظر میں
اک جانا پہچانا چہرہ دور کھڑا مسکاتا ہے


ہر گوشہ ہے مہکا مہکا اس کی سوندھی خوشبو سے
لگتا ہے وہ ان گلیوں میں اب تک آتا جاتا ہے


جون کی تپتی شاموں میں جب بارش خوب برستی ہے
بھیگی شاخ پہ بیٹھا پنچھی میٹھے گیت سناتا ہے


ہجر کی لمبی قید نبھاتا اک دیوانہ روز و شب
دیواروں سے باتیں کر کے اپنا جی بہلاتا ہے


سوچ رہا ہوں اپنا ہے یا پھر کوئی بیگانہ ہے
وہ اک فرد ذکیؔ جو مجھ پر اتنا حق جتلاتا ہے