سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا آنا
سرمئی شام ہے موسم ہے سہانا آنا
اس سے پہلے کہ میں ہو جاؤں فسانہ آنا
مجھ سے پہلے ہی کئی لوگ خفا رہتے ہیں
مجھ سے جل جائے ذرا اور زمانہ آنا
اک ترا حسن گلابوں سا غزل صورت ہے
اک یہ ساون کا مہینہ ہے سہانا آنا
روز کہتے ہو مجھے آج تو یہ ہے وہ ہے
آج دنیا سے کوئی کر کے بہانہ آنا
آخری جنگ میں لڑنے کے لئے نکلا ہوں
پھر رہے یا نہ رہے تیرا دوانہ آنا
لوگ کہتے ہیں تجھے بھول کے بھی زندہ رہوں
میں نے پوچھا تھا مگر دل نہیں مانا آنا
لوگ تو لوگ ہیں جو چاہے وہ کہہ سکتے ہیں
تو تو میرا ہے مرے دل کو دکھا نہ آنا
تو بھی شمشیر بدن مست ادا تیر نگاہ
میں بھی بیٹھا ہوں کہ ہو جاؤں نشانہ آنا
دشمن جان سمجھتا ہے کہ تنہا ہوں میں
میں نے دشمن کو بتانا ہے کہ نا نا آنا
مسکراتا ہوں مگر ڈر ہے کسی محفل میں
اشک آنکھوں سے نہ ہو جائیں روانہ آنا
وہ جو معصوم سا شاعر ہے مبارکؔ احمدؔ
اس کا دنیا میں فقط تو ہے خزانہ آنا