شام غم آج ذرا ایسے منا لی جائے

شام غم آج ذرا ایسے منا لی جائے
بے سبب ایک غزل اور سنا لی جائے


حاکم وقت کو دیکھوں تو دعا کرتا ہوں
اتنی عزت دے خدا جتنی سنبھالی جائے


میرے مولا وہ خسارے کے سوا کچھ بھی نہیں
ہر وہ لمحہ جو تری یاد سے خالی جائے


گر مرے ہاتھ میں آ جائے الادیں کا چراغ
گھر کا مزدور کوئی ہاتھ نہ خالی جائے


حد سے بھی بڑھ کے ضروری ہے دعائیں کرنا
اور اس سے بھی ضروری ہے دعا لی جائے


پوچھتا کیا ہے کمائی کا ترے شہر میں دوست
یہ بھی دولت ہے کہ عزت ہی بچا لی جائے


آؤ سجدے میں کریں بات مبارکؔ اس سے
جس کے در سے نہ کوئی خالی سوالی جائے