روپ سنہرا آنکھ کنول ہے کیا لکھوں

روپ سنہرا آنکھ کنول ہے کیا لکھوں
اس کی اک اک بات غزل ہے کیا لکھوں


میں کہ دکھ کے صحراؤں میں پیاسا ہوں
وہ کہ سکھ کا گنگا جل ہے کیا لکھوں


میں کہ ہر اک موڑ نئے دوراہے پر
وہ کہ ہر الجھن کا حل ہے کیا لکھوں


سوچ رہا تھا لکھ دوں دل کی بات اسے
پھر سوچا دل تو پاگل ہے کیا لکھوں


جس کو دیکھ کے وقت کی نبضیں رک جائیں
اس کی آنکھ میں وہ کاجل ہے کیا لکھوں


شہر ترے سے نکلا ہوں میں کچھ ایسے
آنکھیں نم ہیں اور دلدل ہے کیا لکھوں


میں بیٹھا تھا لکھنے اپنے غم اس کو
اشکوں سے کاغذ جل تھل ہے کیا لکھوں


روپ نگر میں نور سا جھلمل وہ چہرہ
سندر شیتل اور کومل ہے کیا لکھوں


چاند ستارے اس کو دیکھ کے جلتے ہیں
وہ جگ مگ سا شیش محل ہے کیا لکھوں


اس کے لمس کو باغ کا باغ ترستا ہے
وہ شاداب ہے یا مخمل ہے کیا لکھوں


اس نے قتل کیا پر کون گواہی دے
ساری دنیا اس کے ول ہے کیا لکھوں


ایک مبارکؔ وہ نہ دل سے دور رہے
باقی تو پھر چل سو چل ہے کیا لکھوں