کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہو سکا

کوئی درد ہے جو ابھی دوا نہیں ہو سکا
وہ بچھڑ گیا ہے مگر جدا نہیں ہو سکا


کوئی ہے خلش جو کھٹک رہی ہے ابھی مجھے
کوئی شعر ہے جو ابھی بپا نہیں ہو سکا


وہ ملے اگر تو اسے کہوں اے گلاب شخص
کوئی تجھ سا کیا تری خاک پا نہیں ہو سکا


ترے بعد پھر مری موسموں سے بنی نہیں
ترے بعد میں کبھی پھر ہرا نہیں ہو سکا


سر بزم ہیں یہی تذکرے کہ برا ہوں میں
مرا جرم ہے کہ میں بے وفا نہیں ہو سکا


اسی بات پر مری دوستوں سے ہے دشمنی
میں امیر شہر کا ہم نوا نہیں ہو سکا


کسی اور شب میں سناؤں گا یہ غزل تمہیں
ابھی آنکھ نم ابھی دل دعا نہیں ہو سکا


ترے عشق میں کوئی جاں بھی لے تو بھی جان جاں
میں یہی کہوں گا کہ حق ادا نہیں ہو سکا