سلگتی ریت پہ چلنا پڑے خدا نہ کرے

سلگتی ریت پہ چلنا پڑے خدا نہ کرے
مری طرح تجھے قسمت برہنہ پا نہ کرے


پھر اس کے بعد مری زندگی وفا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے


اک ایک پل ہے اذیت نفس نفس ہے عذاب
جو مجھ کو دیکھ لے جینے کا حوصلہ نہ کرے


جسے مجال تکلم نہ ہو وہ چپ بیٹھے
بڑوں کی بات سنے کوئی تبصرہ نہ کرے


چھوئے بغیر چراغوں کو وہ گزر جائے
ہوا سے کوئی بھی ایسا مطالبہ نہ کرے


یہ نسل لفظ محبت سے آشنا ہی نہیں
کوئی کسی سے بھی تہذیب کا گلہ نہ کرے


خبر یہ ہے کہ ادھر چل رہی ہے گرم ہوا
کوئی پرندہ بھی ہجرت کا فیصلہ نہ کرے


سلوک جس کا ہو سب کے لئے شجر جیسا
کسی بھی عمر میں بچوں کا آسرا نہ کرے


یہ مشورہ ہے مرا رمزؔ اعتراض نہیں
پرائی آگ بجھانے میں خود جلا نہ کرے