سلگتے سوچتے گھلتے رہے شباب کے دن
سلگتے سوچتے گھلتے رہے شباب کے دن
گزر گئے ہیں ترے ہجر میں عذاب کے دن
خود اپنے آپ سے لڑ کر کبھی زمانے سے
بسر ہوئے ہیں کئی اس طرح جناب کے دن
غرور اتنا بھی جوبن پہ مت کرو دلبر
یہ جان لو ہیں بہت مختصر گلاب کے دن
مرے رفیق مجھے رفتہ رفتہ چھوڑ گئے
ہمیشہ تو نہیں رہتے ہیں آب و تاب کے دن
اگر گناہ نے پیری میں لا کے چھوڑ دیا
زیاں نصیب سمجھ لد گئے ثواب کے دن
خدا سے کیفؔ یہ بخشش کا ہے سوال کے وہ
بنا حساب مجھے بخش دے حساب کے دن