آنگن میں مرے دیکھیے کب پاؤں دھرے وہ

آنگن میں مرے دیکھیے کب پاؤں دھرے وہ
جاتا ہوں قریب اس کے تو ہوتا ہے پرے وہ


باتوں میں لبھا کر کہیں گم ہو گیا اک دن
شاید مجھے یاد آتا ہے اک شخص ارے وہ


اس چاند سے چہرے کی چمک اور کہیں ہے
لگتا ہے ستاروں سے سدا مانگ بھرے وہ


جاں دشمن جانی سے بچانی نہیں ممکن
ہاں جان ہی دینی ہے کسی کو تو مرے وہ


بے خوف ہی جیتے رہو مرنا ہے بہر حال
بزدل ہے اگر کوئی تو دنیا سے ڈرے وہ


اس دور میں الٹا ہوا معیار شرافت
کھوٹوں میں گنے جاتے ہیں ہم اور کھرے وہ