بچوں کی تربیت: کیا ، کیوں اور کیسے کی جائے؟
آج کل والدین اپنے بچوں کی تربیت سے متعلق بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ بچوں کی بری عادات اور بدتمیزی سے نالاں ہیں۔۔۔والدین اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ اچھی عادات کیسے سکھائیں ؟ یہ سب اس تحریر میں ملاحظہ کیجیے۔
آج کل والدین اپنے بچوں کی تربیت سے متعلق بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ بچوں کی بری عادات اور بدتمیزی سے نالاں ہیں۔۔۔والدین اپنے بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ اچھی عادات کیسے سکھائیں ؟ یہ سب اس تحریر میں ملاحظہ کیجیے۔
وہ اتنی بلند آواز سے روئی کہ اس کا تڑپنا دیکھا نہ جاتا تھا۔ تین لوگ جو گاڑی میں ساتھ آئے تھے اس کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس کی زبان پر یہی تھا۔۔ بابا پاس۔۔بابا پاس ۔۔
چوری کی عادت اگر پختہ ہو جائے تو بڑے جرائم کی طرف بھی راغب کرسکتی ہے۔
ماں باپ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اچھے سے اچھا سکول تلاش کرکے اس میں بھیجتے ہیں اور ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کی بنیادی تعلیم اچھی ہو۔عموماً یہ سب پاپڑ اس لیے بیلے جاتے ہیں کہ اس کے سبب ملنے والی اچھی جاب ان کے مستقبل کی ضامن ہو۔
جو والدین کچھ عرصہ پہلے تک اپنے بچوں کو بخوبی پڑھا لیا کرتے تھے ، اب وہ اپنے بچوں کو نام نہاد "ٹیوشن سینٹرز" بھیجنے پر مجبور ہیں۔ نصاب تعلیم کو اسقدر وسیع کر دیا گیا ہے کہ ایک عام تعلیم یافتہ شخص اپنے بچوں کو بمشکل ہی پڑھا پاتا ہے ۔
شوق پیدا کرنے والے کی ذات بچوں کے لیے نمونہ ہوتو ترغیب اور آمادگی پیدا کرنے میں بہت زیادہ آسانی ہوجاتی ہے،ساتھ ہی اس کے لیے والدین کی جانب سے دعا، توکل اور عاجزی وانکساری کا اہتمام،صبر وتحمل، نرمی اور مسلسل اولاد کی رہنمائی مقصد کے حصول کے لیے بے حد ضروری ہے۔باپ اور ماں اس کام میں برابر کے شریک ہیں، گرچہ اس کام میں ماں کا مقام اللہ کے نزدیک اولین بنیاد ہے۔
ہمارے ہاں بچوں کی تعلیم اور تربیت کا عمل جن غلط یا ناپسندیدہ روایات کا شکار ہو چکا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ والدین اور بڑے بچوں کی ذہانت و قابلیت اور استعداد کا اندازہ ان کے امتحانی نمبروں یا گریڈز سے لگاتے ہیں۔ یعنی بچوں نے امتحانات میں جس قدر نمبر حاصل کیے ہوتے ہیں اسی سے انہیں لائق یا نالائق، کامیاب یا ناکام اور ذہین یا کند ذہن کے خانوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ بچوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ والدین اور بزرگوں کا وہ رویہ ہوتا ہے جو اس تقسیم کے بعد ان کے ساتھ روا رک
ہم سب کو چاہیے کہ خود رمضان کو اچھا گزارنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچوں کو رمضان کے تصور کو دلچسپ انداز میں متعارف کرایا جائے، خاص طور پر جب وہ گزشتہ برسوں میں کورونا کی وجہ سے ایسی سرگرمیوں سے محروم رہ گئے ہوں۔
اپنے بچے کی نفسیات کو سمجھنا اہم چیزوں میں سے ایک ہے جسے ایک والدین کے طور پر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سیکھ آپ کے بچے کے بڑھنے اور بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ رہنمائی اور پرورش میں بہترین انسان بننے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اعداد و شمار حیران کن بھی ہیں اور اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بھی۔ بچوں اور نوجوانوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال سے دنیا بھر کے والدین پریشان ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ٹین ایجرز یعنی 13 سے 19 سال تک کے نوجوانوں میں روزانہ سکرین کو دیے گئے وقت کی اوسط 9 گھنٹے آرہی ہے۔ یہ روزانہ کی کسی فل ٹائم نوکری کو دیے گئے وقت ، یعنی آٹھ گھنٹے ، سے بھی زیادہ ہے۔