افسانہ

ٹمٹماتے ہوئے دیے

یہ علاقہ شہر کی ہلچل سے کچھ دور واقع تھا۔اِس ڈِیمڈ یونیورسِٹی میں کئی فیکلٹیز تھیں۔ کینٹین ایک طرف تھا، دوسری طرف ہاسٹل کی دو منزلہ عمارتیں ۔ چاروں طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔اُسی کے بیچ کچی پگڈنڈیاں تھیں جو سبھی عمارتوں کو آپس میں جوڑتی تھیں۔ پگڈنڈیوں کی لال مِٹّی پر سپرِنگ ...

مزید پڑھیے

ذوقِ اسیری

جب پہلی بار اس پر میری نظر پڑی تو وہ صوفے پر بیٹھا بہت تحمل سے کسی کی بات سن رہا تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ وہ متوجہ تو ہے لیکن سن نہیں رہا۔ یقیناً آپ کو کبھی نہ کبھی اس بات کا تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔ وہ کچھ ایسا ترچھا بیٹھا تھا کہ اس کی شکل بھی پوری طرح نظر نہیں آئی لیکن اس ادھورے ...

مزید پڑھیے

دھوپ کی تپش

آج بھی وہ اپنے مقر رہ وقت پر ہی آئے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچپن سے ہی میں نے سیکھ لیا تھا کہ وہ جس وقت کا وعدہ کرتے ہیں اسی وقت پہنچ جاتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی آمد کی امید رکھنا عبث ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھی ایک خوشگوار حیرانگی کے لئے بغیر اطلاع کے بھی پہنچ جاتے ہیں۔ آج ...

مزید پڑھیے

ٹک ٹک دیدم

بڑا گھنٹا گھر شہر کے بالکل وسط میں تھا۔ شروع میں شاید اس کا رنگ سرخ رہا ہو مگر اب وقت کی گرد نے اسے ایک ایسا رنگ دے دیا تھا جو صرف وقت ہی چن سکتا ہے۔ بلند اتنا کہ میلوں دور سے نظر آ جائے۔ چوکور مینار کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی ہر سمت پر لگی گھڑی بلکہ گھڑیال ہی کہیئے، بھی ...

مزید پڑھیے

پرایا جرم

میں کمرے میں داخل ہوا تو گفتگو ایک لمحے کے لئے رک گئی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمیشہ یہی ہوتا آیا تھا۔ جہاں میں کسی کمرے، برآمدے، صحن میں داخل ہوا ایک لمحے کے لئے گویا وقت رک جاتا تھا۔ پھر ایک لحظہ ٹھٹک کر جیسے دوبارہ چل پڑتا۔ یہ لحظہ اتنا مختصر بھی ہو سکتا تھا کہ اگر آپ کو معلوم نہ ...

مزید پڑھیے

بجوکا

رابعہ بہت دل لگا کر تیار ہو رہی تھی۔ پچھلے سال میلے پر زمیندارنی نے اپنا ایک پرانا ریشمی جوڑا دیا تھا جو رابعہ نے بہت سنبھال کر صندوق میں رکھ دیا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ اس جوڑے کو صندوق سے باہر کی ہوا لگا ئی جائے۔ صبح بہت سویرے باپ کے اٹھنے سے پہلے نہا چکی تھی۔ ماں کے مرنے سے ...

مزید پڑھیے

پتلی تماشا

مداری نے لکڑی کے فریم پر سے ملگجی سفید چادر اُتار کر تہ کرنا شروع کر دیا۔ شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا۔ تھکا ہوا سورج بھی اپنی سفیداوڑھنی اُتار کر سیاہی کا لبادہ اوڑھ رہا تھا۔ زیادہ تر تماش بین جا چکے تھے۔ کچھ بچے اب بھی دل چسپی سے اسے سامان بٹورتا دیکھ رہے تھے، گویا یہ بھی تماشے ...

مزید پڑھیے

جنگل کا قانون

‘‘پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں … پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں ‘‘ اسی گنگناہٹ میں مگن وہ جنگل کے اندر دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ کانٹوں سے دامن بچاتی، اِدھر ہریالی پہ منہ مارا۔۔ ۔ اُدھر پھولوں پہ چکھ ماری۔ جوانی کا عالم ایسا ہی اندھا ہوتا ہے۔ آج صبح تالاب میں اپنا روپ ...

مزید پڑھیے

سخت جانی ہائے تنہائی

‘‘ہائے میری ٹانگ‘‘ احمد کی سسکی میں درد کی شدت نمایاں تھی۔ ارے کوئی ہے جو میری مدد کرے۔ احمد کا بدن کمر سے نیچے بالکل مفلوج ہو چکا تھا۔ کاش درد کا احساس بھی مفلوج ہو جائے، مٹ جائے۔ درد رہے یا نہ رہے بس محسوس نہ ہو۔ اس درد سے چھٹکارا پانے کے لئے اس وقت وہ سب کچھ قربان کرنے کو تیار ...

مزید پڑھیے

ٹوبہ ٹیک سنگھ

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ، پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں ہندوستان کے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 55 سے 233