نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی: علامہ اقبال کی طالب علمی کے زمانے کی غزل
علامہ اقبال کی طالب علمی کے دور کی غزل
علامہ اقبال کی طالب علمی کے دور کی غزل
برصغیر کے مسلمانوں میں عقابی روح بیدار کرنے والا اور انہیں ستاروں سے آگے کے جہانوں کا پتہ بتانے والا داناۓ راز بستر علالت پر تھا. مرض میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کے کمرے میں میاں محمد شفیع، ڈاکٹر عبدالقیوم اور راجہ حسن اختر رنجیدہ مغموم ان کی پل پل بگڑتی ہوئی حالت کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔ ان اصحاب کے علاوہ اقبال کا باوفا خادم علی بخش بھی ان کی خدمت میں موجود تھا۔ لگ بھگ رات کے 2 بجے ہوں گے جب اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال کمرے میں داخل ہوئے۔ اقبال نے نحیف سی آواز میں پوچھا " کون ہے؟ "
پچھلے سال ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس میں جرمنی کی جمناسٹک کی خواتین نے یہی سوال اٹھاتے ہوئے پورے کپڑے پہن کر جمناسٹک کھیلی۔ ان کا ساتھ تو ان کے ملک کی فیڈریشن نے دے دیا لیکن جب اسی قسم کا احتجاج نوروے کی بیچ ہینڈ بال کی ٹیم کی کھلاڑیوں نے کیا تو انہیں جرمانہ کر دیا گیا۔
آپ شاید جانتے ہوں گے کہ "میرا بھائی" وہ کتاب ہے جسے قائد اعظم کی ہمشیرہ ، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے لکھا۔ اسے 1987 میں قائد اعظم لائبریری نے انگریزی میں مائی برادر کے عنوان سے شائع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کو سینسر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو کچھ سینسر کیا گیا وہ قدرت اللہ شہاب نے لکھ دیا۔ پتہ نہیں۔ دونوں میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ پڑھ کر بتائیے گا کہ کیا ایسا ہے یا نہیں؟ میں منتظر رہوں گا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی یاد میں افتخار عارف صاحب کی یہ نظم ، اپنے اندر ایک خاص درد اور فغاں کو سموئے ہوئے ہے ، اس نظم میں ارض پاک میں چوہتر برس سے پیہم جاری خوابوں کی بیوپاری اور مرگِ امید پہ فریاد بھی ہے اور ملک کے دو لخت ہو جانے کے سانحے کا نوحہ بھی ، یعنی " مہر و مِہتاب دو نِیم، ایک طرف خواب دو نِیم ؛ جو نہ ہونا تھا ، وہ سب ہو کے رہا تیرے بعد "
جوں جوں ہم جناح کی عادات و اطوار کو دیکھتے ہیں تو بحیثیت مسلمان ہمارے دلوں سے نکلتا ہے،" ویل ڈن مسٹر جناح۔ بے شک تم ہر میدان میں اپنی خصوصیات کی وجہ سے نمایاں ہو۔" کیا ہم میں ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں کہ ہم یہ امید رکھیں کہ اللہ اور اس کی مخلوق ہم سے کہے ، "ویل ڈن مسٹر۔۔۔۔۔"
اقوام متحدہ نے 1975 میں خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔ اس کے دو سال بعد باقاعدہ قرارداد منظور کر کے تمام ارکان ممالک میں حقوق نسواں کی بحالی کے لیے یوم خواتین منعقد کرنے کی روایت ڈالی گئی۔ 2020 میں یوم نسواں پر اقوام متحدہ کا نعرہ تھا: ’’ میں مساوات پر یقین رکھنے والی نسل ہوں جو کہ خواتین کے حقوق کی مساوات کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی۔‘‘ اس خوش نما نعرے کے ٹھیک ایک سال بعد سوئزرلینڈ میں عبادت گاہوں کے علاوہ عوامی مقامات پر برقع اور نقاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔
چھوڑیے حضور ، اقبال کی کیا بات کریں گے ، اس کی ایک مسجد قرطبہ اور ایک ساقی نامہ ہی بیشتر شعرا کے سارے کلا م پر بھاری ہیں ۔ اقبال کے نفس کی تاب نہ ہم لا سکے نہ آپ ، سو کوئی برابری کا ، اپنے جوڑ کا کوئی فرد دیکھ لیتے ہیں ناں مشقِ ستم کے لیے ، کہ ؛ دگر از یوسفِ گم گشتہ سخن نتواں گفت ؛ تپَشِ خونِ زلیخا نہ تُو داری، و نہ من
ہمارے نصاب میں اقبال کو جس طرح شامل کیاگیا،اس سے طالب علم صرف دو باتیں جان پاتا ہے۔ایک یہ کہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا۔دوسرا یہ کہ وہ شاعر تھے۔ اقبال اس کے علاوہ بھی کچھ تھے،وہ ساری زندگی اس سے بے خبر رہتا ہے۔کیا انہوں نے نثر میں بھی کچھ لکھا؟ ان کے خطبات کی اسلامی فکر کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے،وہ کبھی نہیں جان سکتا۔علامہ اقبال نے جب علی گڑھ کے طلبہ کے سامنے یہ خطبات پڑھے تو ڈاکٹر سید ظفرالحسن،صدر شعبہ فلسفہ نے اپنے خطبہ صدارت میں اپنے تاثرات بیان کیے۔
سپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، انگلستان، مصر، فلسطین، افغانستان اور برٹش انڈیا کے طول و عرض کے اسفار اور اعلیٰ سیاسی و علمی شخصیات سے ملاقاتیں اور عالمی کانفرنسز میں شرکت ۔۔۔ اس دور میں جب ہوائی جہاز عام نہیں تھے ۔۔۔ یہ بھی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ کابل یونیورسٹی کے قیام سے موتمرِ عالمِ اسلامی اور الہٰ آباد اجلاس سے گول میز کانفرنس تک ۔۔۔ اقبال کہاں کردار کے غازی نظر نہیں آتے ؟