سوز دل شمع تپاں ہو جیسے

سوز دل شمع تپاں ہو جیسے
آگ چولھے میں نہاں ہو جیسے


کیسی افسردہ بہار آئی ہے
اب بھی گلشن میں خزاں ہو جیسے


مجھ پہ محفل میں تبسم کی نظر
بہ طفیل دگراں ہو جیسے


آپ کی چشم عنایت کا یقیں
دل فریب ایک گماں ہو جیسے


یوں وہ سنتے ہیں کہانی میری
اک حدیث دگراں ہو جیسے


چونک اٹھے ہم تو قیامت ہوگی
زندگی خواب گراں ہو جیسے


دل سے اک آہ تو نکلی تھی مگر
شمع کشتہ کا دھواں ہو جیسے


سامنے ان کے یہ عالم ہے رضاؔ
ایک عالم نگراں ہو جیسے