کسے خبر تھی کہ جیتے جی بھی وہ دور آئے گا زندگی کا
کسے خبر تھی کہ جیتے جی بھی وہ دور آئے گا زندگی کا
کہ ہوگا محسوس ہر نفس یہ نہ کوئی میرا نہ میں کسی کا
حدود وہم و گماں سے گزرا مکاں تو کیا لا مکاں سے گزرا
رکے گا آخر کہاں پہنچ کر یہ کارواں ذوق آگہی کا
جو میرے دل سے تھا ان کو کرنا نہ کر سکیں آپ کی نگاہیں
مری طبیعت میں نقص جو ہے قصور ہے وہ بھی آپ ہی کا
ہے قابل رحم ان کی حالت نہ کیجئے آپ ان سے نفرت
دراصل احساس کمتری ہے جنہیں ہے کچھ ناز برتری کا
سکھانے والے تو آئے پیہم ہر اک زمیں پر ہر اک زماں میں
مگر ہم ایسے ہی بد گہر تھے سلیقہ آیا نہ زندگی کا
یہ ہم نے مانا کہ اس جہاں میں خلوص جنس گراں ہے لیکن
کبھی تو یارو خلوص برتو بھرم تو رہ جائے دوستی کا
جو حسن پر کار پر فدا ہیں انہیں رضاؔ کون یہ بتائے
وہ حسن ہے فتنۂ قیامت لگائے غازہ جو سادگی کا