غیروں سے بھی دھوکے کھائے ہیں اپنوں سے بھی دھوکے کھائے ہیں
غیروں سے بھی دھوکے کھائے ہیں اپنوں سے بھی دھوکے کھائے ہیں
تب جا کے کہیں اس دنیا کے انداز سمجھ میں آئے ہیں
وہ اپنی جفائے پیہم پر دم بھر بھی اگر شرمائے ہیں
احساس وفاداری کو مرے پہروں پچھتاوے آئے ہیں
ہم میں نہ محبت کی گرمی ہم میں نہ شرافت کی نرمی
انسان کہیں کیوں سب ہم کو ہم چلتے پھرتے سائے ہیں
کچھ پھول گلوں کے ہار بنے کچھ جنس سر بازار بنے
ان پھولوں کی قسمت کیا کہیے شاخوں ہی پہ جو مرجھائے ہیں
صحرائے خرد میں حیراں ہیں کل قافلہ ہائے راہرواں
منہ موڑ لیا ہے سورج نے ہر سمت اندھیرے چھائے ہیں
احسان بہ ہر حالت ہم پر ہے ان کی بدلتی نظروں کا
جینے کے سہارے الفت میں کچھ کھوئے ہیں کچھ پائے ہیں
امید نے پھر کروٹ لی ہے بدلے ہیں فضا کے پھر تیور
اب دیکھیے کیا برساتے ہیں کچھ بادل گھر کر آئے ہیں
ہم دوست نہیں دشمن ہی سہی بھائی نہ سہی بیری ہی سہی
ہمسائے کا حق تو دو ہم کو ہم کچھ بھی نہ ہو ہمسائے ہیں
وہ قدر کریں یا ٹھکرا دیں یہ اہل نظر کی مرضی ہے
انبار سے خار و خس کی رضاؔ کچھ موتی چن کر لائے ہیں