اگرچہ شعلہ عیاں نہیں ہے اگرچہ لب پر دھواں نہیں ہے
اگرچہ شعلہ عیاں نہیں ہے اگرچہ لب پر دھواں نہیں ہے
نہاں جسے ہم سمجھ رہے ہیں وہ آگ دل کی نہاں نہیں ہے
یہ راہ وہ ہے کہ ہر مسافر کے تجربے جس میں مختلف ہیں
وہ کون انساں ہے زندگی جس کی اک نئی داستاں نہیں ہے
کدھر کو جائیں کسے پکاریں مڑیں کہ آگے ہی بڑھتے جائیں
غبار کا بھی ترے سہارا ہمیں تو اے کارواں نہیں ہے
ذرا یہ صحرا کو جانے والوں سے کوئی پوچھے کہاں چلے تم
کہیں ہے کوئی زمین ایسی جہاں پہ یہ آسماں نہیں ہے
وہ مہرباں ہو تو وسوسہ یہ کہ مہربانی یہ دفعتاً کیوں
وہ سرگراں ہے تو ہے یہ حسرت کہ ہائے وہ مہرباں نہیں ہے
یہ دل کی پیہم سی بے قراری نظر کی حرکات اضطراری
اور اس پہ اصرار پردہ داری کہ جیسے وہ رازداں نہیں ہے
وہی حکایت دل و نظر کی وہی کہانی ہے چشم تر کی
رضاؔ یہ میری غزل سرائی نئی کوئی داستاں نہیں ہے