صحبت میکشی سرسری رہ گئی

صحبت میکشی سرسری رہ گئی
اور جو مینا بھری تھی بھری رہ گئی


کیا غضب ہے نشیمن سلگتا رہا
اور شاخ نشیمن ہری رہ گئی


آخرش کام آ ہی گئی خامشی
لفظ و معنی کی پردہ دری رہ گئی


ہر نظر بن گئی اپنے سینے کا تیر
اک خلش بن کے دیدہ دری رہ گئی


نسل آدم سے اتنے اٹھے کردگار
اپنے لب سی کے پیغمبری رہ گئی


آدمی کا خدا بن گیا آدمی
داور حشر کی داوری رہ گئی


میرا ہر نقش پا بن گیا سنگ میل
خضر کی زحمت رہبری رہ گئی


شورؔ دامان غم ہو گیا تار تار
ہر مسرت کی بخیہ گری رہ گئی