ملاح
یہ گاتے زلزلے یہ ناچتے طوفان کے دھارے
ہوا کی نیتوں سے بے خبر ملاح بے چارے
وہ طوفانوں کے حل چلنے لگے سیال کھیتی میں
وہ کشتی آ کے ڈوبی گوہریں قطروں کی ریتی میں
وہ ٹوٹیں موج کی شفاف دیواریں سفینوں پر
وہ پھر لہریں ابھر آئیں ارادوں کی جبینوں پر
وہ ٹکرانے لگی آواز نیلے آسمانوں سے
وہ خط رہ گزر پر جل اٹھیں شمعیں ترانوں سے
ہوائیں تھم نہیں سکتیں تلاطم رک نہیں سکتے
سفینے ہیں کہ طوفاں کے تھپیڑے کھائے جاتے ہیں
مگر ملاح گیت اپنے برابر گئے جاتے ہیں
ہیں کتنے غم کہ جن کی مے سرور انگیز ہوتی ہے
ہیں کتنے گیت جن کی لو ہوا سے تیز ہوتی ہے
کھنچا ہو جن کا خط رہ گزر طوفاں کے دھاروں پر
بڑی مشکل سے ان کو نیند آتی ہے کناروں پر