سوچ کے اس سونے صحرا کو جب سے تیرا دھیان ملا

سوچ کے اس سونے صحرا کو جب سے تیرا دھیان ملا
ہم بھی گوتم بن بیٹھے ہیں ہم کو بھی نروان ملا


ہم نے دیکھا رات تھی کالی جس کا کوئی اور نہ چھور
اس نے رخ سے زلف ہٹائی سورج کو سمان ملا


خود شرمائے سو بل کھائے دیکھ کے اپنا روپ سروپ
بات کی بات نہ سمجھے یارو کیسا ہمیں نادان ملا


اشک بھرے ہیں نین کٹورے غم کی لذت یار نہ پوچھ
عشق نگر کے مہمانوں کی خاطر کیا جلپان ملا


راہ بذات خود مقصد ہے چلتے رہنا منزل ہے
بستی بستی جنگل جنگل بھٹکے تو یہ گیان ملا