سیاسی راہ میں اندیشۂ لغزش بہت ہے
سیاسی راہ میں اندیشۂ لغزش بہت ہے
تجھے برباد کرنے کو تری خواہش بہت ہے
ادا کاری ریا کاری فریب و مکر سیکھو
سیاست میں انہیں اوصاف سے پرسش بہت ہے
یہ دلی ہے دلالوں کی یہاں سب کام ہوں گے
تمہاری جیب ہو بھاری تو آسائش بہت ہے
کبھی جو پوچھ لیتے ہو ہمارا حال ہم سے
تمہارے دل میں یہ تھوڑی سی گنجائش بہت ہے
کہوں کچھ شعر ایسے جو اتر جائیں دلوں میں
مرے مولیٰ مجھے اتنی تری بخشش بہت ہے