ہر ایک ذہن میں سارا حساب رہتا ہے

ہر ایک ذہن میں سارا حساب رہتا ہے
سوال سننے سے پہلے جواب رہتا ہے


وہ ایک موڑ جہاں ایک دن لٹا تھا میں
وہیں مرا دل خانہ خراب رہتا ہے


ہوا کے دم پہ ہے جب زندگی کا دار و مدار
تو کیوں غرور تجھے اے حباب رہتا ہے


چلے گی چال کوئی گردش فلک شاید
کئی دنوں سے بڑا اضطراب رہتا ہے


وہ جھولی کیسے بھرے پیار کرنے والوں کی
اسی فراق میں ٹوٹا شہاب رہتا ہے


مرے لیے ہیں مصیبت یہ آئنہ خانے
یہاں ضمیر مرا بے نقاب رہتا ہے


حسین خواب ہوں کتنے ہی پر کوئی آلوکؔ
تمام عمر کہاں محو خواب رہتا ہے