سیاست

مکدر ہے فضائے عالم امکاں سیاست سے
بہت بے آبرو ہے آج کل انساں سیاست سے
ضمیر و ظرف کی اس کے یہاں قیمت نہیں کوئی
جہاں میں در بدر ہیں صاحب ایماں سیاست سے
یہ احساسات تہذیب و تمدن کو مٹاتی ہے
سیاست آج کل کی کیسے کیسے گل کھلاتی ہے
نہیں شیوہ سیاست کا محبت اور رواداری
سکھاتی ہے پرستاروں کو اپنے یہ ریا کاری
نہ اس کا کوئی مسلک ہے نہ اس کا کوئی مذہب ہے
دل حرس و ہوس میں بن کے رہتی ہے یہ چنگاری
کسی کا گھر گراتی ہے کسی کا گھر سجاتی ہے
سیاست آج کل کی کیسے کیسے گل کھلاتی ہے
لڑاتی ہے یہی اک دوسرے کو ذات و مذہب پر
اسی کی شہہ پہ قتل عام ہوتا ہے یہاں اکثر
رعونت یہ سکھاتی ہے منافق حکمرانوں کو
اسی کے بطن سے ہوتے ہیں پیدا جبر و ظلم و شر
یہ اپنے محسنوں کا خون پی کر مسکراتی ہے
سیاست آج کل کی کیسے کیسے گل کھلاتی ہے
سدا یہ اتحاد باہمی پر وار کرتی ہے
تعصب کو ہوا دیتی ہے دل بیزار کرتی ہے
کہیں تعمیر کرتی ہے عبادت گاہ فتنوں سے
کہیں خود ہی عبادت گاہ کو مسمار کرتی ہے
فریب و مکر سے اپنے یہ ہر سو قہر ڈھاتی ہے
سیاست آج کل کی کیسے کیسے گل کھلاتی ہے
اسی کے دم سے فصلیں لہلہاتی ہیں فسادوں کی
یہی تکمیل کرتی ہے حکومت کے ارادوں کی
اسی کی مصلحت سے بغض کے پودے پنپتے ہیں
گرا دیتی ہے یہ دیوار باہم اعتمادوں کی
ہوا دے کر یہ بد عنوانیوں کی لو بڑھاتی ہے
سیاست آج کل کی کیسے کیسے گل کھلاتی ہے
اشارے پر اسی کے شہر قصبے گاؤں جلتے ہیں
اسی کی آستیں میں سازشوں کے ناگ پلتے ہیں
ستم گاروں پہ کرتی ہے یہ سایہ اپنے آنچل کا
اسی کی آڑ میں اشرار و قاتل بچ نکلتے ہیں
یہ قانون و عدالت کو بھی اب آنکھیں دکھاتی ہے
سیاست آج کل کی کیسے کیسے گل کھلاتی ہے
جسارت کو یہی دہشت گری کا نام دیتی ہے
یہ ہم سایے کو خود ہی جنگ کا پیغام دیتی ہے
بدلتی ہے یہی تقدیر ارباب قیادت کی
یہ اپنے وارثوں کو سر خوشی کا جام دیتی ہے
یہ وعدوں کے گھروندے ریگزاروں میں بناتی ہے
سیاست آج کل کی کیسے کیسے گل کھلاتی ہے