بے زباں اردو
ہوئی جاتی ہے نذر شورش آہ و فغاں اردو
کہے کس سے یہاں اپنے غموں کی داستاں اردو
معاذ اللہ ہے دام ہوس میں قید برسوں سے
کہاں سے ڈھونڈ کے لائے اب اپنا مہرباں اردو
اجازت لب کشائی کی نہ حق فریاد کرنے کا
خود اپنے ہی وطن میں ہو گئی ہے بے زباں اردو
وہی کرتے ہیں کوشش آج اردو کو مٹانے کی
سکھاتی ہے جنہیں محفل میں انداز بیاں اردو
زمیں اب تنگ ہوتی جا رہی ہے اس کی اردو پر
کبھی خود آپ اپنے میں تھا یہ ہندوستاں اردو
بتائیں کیا کہ ہر مقبولیت کے بعد کیوں آخر
ہوئی ہے شر پسندوں کے لئے بار گراں اردو
علامت جنگ آزادی میں تھی یہ سرفروشی کی
کبھی تھی انقلاب وقت کا نعرہ یہاں اردو
بکھیرے اس نے تارے ہر طرف مہر و محبت کے
رہی ہر دور میں امن و اماں کی کہکشاں اردو
دیا پیغام اس نے ایکتا کا بھائی چارے کا
رہی دیوار بن کر نفرتوں کے درمیاں اردو
غزل کے روپ میں اب بھی یہ دنیا کو لبھاتی ہے
پہنچتی ہے جہاں پر باندھ دیتی ہے سماں اردو
ہزاروں لوگ رہبر روٹیاں اردو کی کھاتے ہیں
مگر ہے کون جو دیکھے کہ کیوں ہے نیم جاں اردو