رام
آئینۂ خلوص و محبت یہاں تھے رام
امن اور شانتی کی ضمانت یہاں تھے رام
سچائیوں کی ایک علامت یہاں تھے رام
یعنی دل و نگاہ کی چاہت یہاں تھے رام
قدموں سے رام کے یہ زمیں سرفراز ہے
ہندوستاں کو ان کی شجاعت پہ ناز ہے
ان کے لئے گناہ تھا یہ ظلم و انتشار
ایثار ان کا سارے جہاں پر ہے آشکار
دامن نہیں تھا ان کا تعصب سے داغدار
حرص و ہوس سے دور تھے وہ صاحب وقار
بے شک انہیں کے نام سے روشن ہے نام ہند
اقبال نے بھی ان کو کہا ہے امام ہند
لعل و گہر کی کوئی نہیں تھی طلب انہیں
عزت کے ساتھ دل میں بساتے تھے سب انہیں
بچپن سے نا پسند تھے غیظ و غضب انہیں
لوگوں کا دل دکھانا گوارا تھا کب انہیں
وہ ظالموں پہ قہر غریبوں کی ڈھال تھے
کردار و اعتبار کی روشن مثال تھے
ان کو تھا اپنی رسم اخوت پہ اعتماد
خود کھا کے جوٹھے بیر دیا درس اتحاد
فرض آشنا تھے فرض کو رکھا ہمیشہ یاد
کہنے پہ اپنی ماں کے کہا گھر کو خیرباد
رخصت ہوئے تو لب پہ نہ تھے شکوہ و فغاں
یہ حوصلہ نصیب ہوا ہے کسے یہاں
بن باس پر بھی لب پہ نہ تھا ان کا احتجاج
بھائی کے حق میں چھوڑ دیا اپنا تخت و تاج
کرتے رہے وہ چودہ برس تک دلوں پہ راج
ہندوستاں میں ہے کوئی ان کی مثال آج
راہ وفا پہ چل کے دکھایا ہے رام نے
کہتے ہیں کس کو تیاگ بتایا ہے رام نے
رہبر یہ شر پسند کہاں اور کہاں وہ رام
وہ بے نیاز عیش و طرب زر کے یہ غلام
وہ پیکر وفا یہ ریاکار و بد کلام
وہ امن کے نقیب یہ شمشیر بے نیام
رسم و رواج رام سے عاری ہیں شر پسند
راون کی نیتیوں کے پجاری ہیں شر پسند