سیاہ کمرے میں جب صبح کا اجالا ہوا
سیاہ کمرے میں جب صبح کا اجالا ہوا
زمین بوس ہوا میں فلک سے ٹپکا ہوا
تم آفتاب کو کرنوں کی بھیک دیتی ہوئی
میں ایک شب کے اندھیرے میں سانس لیتا ہوا
زمیں پہ پھیلی ہوئی دھوپ اس شرارے کی
اور ایک سایہ مرے ساتھ ساتھ بجھتا ہوا
کسی نے نیند پہن لی کسی کی اتری ہوئی
کسی نے خواب اٹھایا کسی کا پھینکا ہوا
یہ پہلی بار کوئی جنگ راس آئی مجھے
میں اس تک آ گیا دشمن شمار ہوتا ہوا
اداس بیٹھی ہوئی دھوپ سست ناؤ میں ہے
درون دریا کوئی جسم تلملاتا ہوا