ستمبر ، راستہ دے

ستمبر! راستہ دے

ستمبر! راستہ دے

کوئی چہرہ مری نا مطمئن آنکھوں میں پھر کچھ خواب رکھنا چاہتا ہے

کوئی موسم مجھے شاداب رکھنا چاہتا ہے

بہت تپتے ہوئے صحراؤں کو سیراب رکھنا چاہتا ہے

ستمبر! راستہ دے

زمانہ جانتا ہے منہدم ہوتے ہوئے خوابوں کی دلداری میں

کس حد تک گیا ہوں میں

ستمبر!

بے یقیں رستوں پہ تنہا چلتے چلتے تھک گیا ہوں میں

کہیں پامال ہو جائے نہ پھر شہرِ مقدر،

راستہ دے

کہیں معدوم ہو جائے نہ پھر اُمید کا کھلتا ہوا در،

راستہ دے

دلِ بے نور کے ساحل سے ٹکراتے ہوئے

اندھے سمندر، راستہ دے

ستمبر! راستہ دے

ستمبر !راستہ دے!

متعلقہ عنوانات