شہر علم کے دروازے پر

کبھی کبھی دل یہ سوچتا ہے
نہ جانے ہم بے یقین لوگوں کو نام حیدر سے ربط کیوں ہے
حکیم جانے وہ کیسی حکمت سے آشنا تھا
شجیع جانے کہ بدر و خیبر کی فتح مندی کا راز کیا تھا
علیم جانے وہ علم کے کون سے سفینوں کا نا خدا تھا
مجھے تو بس صرف یہ خبر ہے
وہ میرے مولا کی خوشبوؤں میں رچا بسا تھا
وہ ان کے دامان عاطفت میں پلا بڑھا تھا
اور اس کے دن رات میرے آقا کے چشم و ابرو و جنبش لب کے منتظر تھے
وہ رات کو دشمنوں کے نرغے میں سو رہا تھا تو ان کی خاطر
جدال میں سر سے پاؤں تک سرخ ہو رہا تھا تو ان کی خاطر
سو اس کو محبوب جانتا ہوں
سو اس کو مقصود مانتا ہوں
سعادتیں اس کے نام سے ہیں
محبتیں اس کے نام سے ہیں
محبتوں کے سبھی گھرانوں کی نسبتیں اس کے نام سے ہیں