ستاروں کا جہاں ہے اور میں ہوں

ستاروں کا جہاں ہے اور میں ہوں
خیال آسماں ہے اور میں ہوں


نہ جانے کس طرف لے جائے کشتی
شکستہ بادباں ہے اور میں ہوں


مرا افسانہ سن کر کیا کرو گے
غموں کی داستاں ہے اور میں ہوں


رہائش مسئلہ بن کر کھڑی ہے
شکستہ سا مکاں ہے اور میں ہوں


قفس کی تیلیاں کہتی ہیں مجھ سے
بہار گلستاں ہے اور میں ہوں


ابھی محرومیوں کے سلسلے ہیں
نگاہ بے زباں ہے اور میں ہوں


وہ محفل میں ہیں میرے روبرو تاجؔ
نظر کا امتحاں ہے اور میں ہوں