سلسلہ رکھتا ہے دل سے اس طرح پیہم کوئی

سلسلہ رکھتا ہے دل سے اس طرح پیہم کوئی
میری آنکھوں میں سجاتا ہے نئے موسم کوئی


وہ مخاطب اس طرح ہوتا ہے مجھ سے خواب میں
صبح دم جیسے بکھیرے پھول پر شبنم کوئی


دل کی منزل دوسری ہے ذہن کے رستے الگ
اس لئے ہوتا نہیں ہے فیصلہ باہم کوئی


دل کی بربادی پہ اکثر نوحہ خواں رہتی ہے رات
روز کرتا ہے ہماری ذات میں ماتم کوئی


انجمؔ اس کی انگلیاں خوابوں کی پرچھائیں سی ہیں
بند آنکھوں پر کروں محسوس میں ریشم کوئی