جس نے باندھے ہیں سارے پر میرے

جس نے باندھے ہیں سارے پر میرے
اس کے ہی گرد ہیں سفر میرے


ایک خواہش نے کتنا توڑ دیا
کھو گئے مجھ سے سب ہنر میرے


غم یہ جاتے نہیں کسی جانب
ہو گئے ہیں کچھ اس قدر میرے


غیر محسوس بیڑیاں ہیں کئی
یوں بندھے تجھ سے سب سفر میرے


یوں تو کتنی دعائیں تھیں لیکن
بے ثمر ہی رہے شجر میرے


دے کے آزادیاں مجھے انجمؔ
روز اس نے تراشے پر میرے