میں چاہتی ہوں اب کے پریشان وہ بھی ہو

میں چاہتی ہوں اب کے پریشان وہ بھی ہو
دل کے معاملات میں حیران وہ بھی ہو


میں تو تمام عمر ہی تنہا رہی مگر
کچھ روز محفلوں میں تو ویران وہ بھی ہو


کیوں میں بھی خواب عشق کی قیدی رہوں سدا
اک بار بزم عشق کا مہمان وہ بھی ہو


اس کے بغیر کیسے کٹی زندگی مری
یہ سوچ کر کبھی تو پشیمان وہ بھی ہو


انجمؔ یہ دل کے راز کہاں کھلنے پائے ہیں
شاید کہ اپنے آپ سے انجان وہ بھی ہو