اک حسیں خواب جو آنکھوں میں بسا ہے وہ ہے
اک حسیں خواب جو آنکھوں میں بسا ہے وہ ہے
مجھ سے تنہائی میں جو بول رہا ہے وہ ہے
جب کبھی میں نے پڑھی عمر گزشتہ کی کتاب
ایک سایا سا جو آہٹ پہ رکا ہے وہ ہے
زندگی نے تو کبھی کچھ نہ دیا غم کے سوا
عشق نے مجھ کو جو اک روپ دیا ہے وہ ہے
میری قسمت کے ستارے ہیں اسی سے روشن
چاند بن کر جو مرے دل میں چھپا ہے وہ ہے
میں وہ اک جھیل کہ جس کی کوئی منزل ہی نہیں
دور تک ساتھ جو میرے ہی بہا ہے وہ ہے
چھوڑ کے مجھ کو سبھی لوٹ گئے آخر شب
سانس بن کر جو مرے دل میں رکا ہے وہ ہے
بن کے امید جو چمکا تھا وہی تھا انجمؔ
اور ابھی درد سا جو دل میں اٹھا ہے وہ ہے