سینۂ شاعر غم سے بھرا ہے آنکھ مگر نمناک نہیں ہے

سینۂ شاعر غم سے بھرا ہے آنکھ مگر نمناک نہیں ہے
روز ازل سے ہے دیوانہ دامن لیکن چاک نہیں ہے


ہجر کے غم میں رونے والے تیرا الم دنیا کی نظر میں
کل بھی عبرت ناک نہیں تھا آج بھی عبرت ناک نہیں ہے


شکوہ بہ لب وہ رند ہیں ساقی آج بھی تیرے میخانے میں
تشنہ دہن بیٹھے ہیں لیکن عرض طلب بے باک نہیں ہے


شاعر کی آوارہ طبیعت اصل میں ہے تزئین محبت
ناصح مشفق تم سب کچھ ہو صرف یہی ادراک نہیں ہے


تو ہی بتا ہم ایسے انساں تیری گلی میں کیوں آتے ہیں
تیری ادائیں شوخ نہیں ہیں تیری نظر بے باک نہیں ہے


میں ہی کیا کچھ اور یگانے میری طرح ہیں تیرے دوانے
پروانوں کی خاک میں شامل لیکن میری خاک نہیں ہے


تم نے عزیزؔ اس کی محفل میں شب نہ سہی لمحے تو گزارے
مستقبل کی فکر تو کیوں ہو حال بھی حسرت‌ ناک نہیں ہے