شعور چارہ گری میں کمال کیا ہوگا

شعور چارہ گری میں کمال کیا ہوگا
جو خود ہی زخم ہنسیں اندمال کیا ہوگا


اک ایک شکل یہی آئنے میں کہتی ہے
اب اور مجھ سے کوئی خوش جمال کیا ہوگا


محبت ان کی حصار حیات توڑ گئی
شمار روز و شب و ماہ و سال کیا ہوگا


ستارے جھانکتے ہیں شام کی فصیلوں سے
نہ جانے آخر شب ان کا حال کیا ہوگا


مجھی سے وقت کی بے چہرگی عبارت ہے
جو میں نہیں تو غبار ملال کیا ہوگا


بھریں نہ برقؔ اگر آبگینے لفظوں کے
جہان معنی کا آب زلال کیا ہوگا