دھیمی دھیمی آنچ پہ غم کی دل کا لہو کم جلتا ہے

دھیمی دھیمی آنچ پہ غم کی دل کا لہو کم جلتا ہے
بھیگی پلکوں کے سائے میں دیدۂ پر نم جلتا ہے


کوچۂ جاناں میں شب غم اک شمع وفا بھی یوں نہ جلی
میرے دہان زخم پہ جیسے پنبۂ مرہم جلتا ہے


گرچہ دل زندہ ہے مرا اب شہر خموشاں کی تصویر
ایک چراغ حسرت پامال آج بھی ہر دم جلتا ہے


پھول کھلے ہیں گلشن میں یا آگ لگی ہے چار طرف
تختۂ گل کے شعلوں پر ہی گوہر شبنم جلتا ہے


بربط ہستی کو عشق اپنا زخمۂ خوش آہنگ ہوا
برقؔ یہاں خاموش لبوں پر حسن کے سرگم جلتا ہے