دست و گریباں واعظ سے ہو جاتے ہیں دیوانے لوگ
دست و گریباں واعظ سے ہو جاتے ہیں دیوانے لوگ
مجھ کو بھی تو شام جنوں کچھ آئے تھے سمجھانے لوگ
بزم طرب میں رقص کناں تھے جانے اور پہچانے لوگ
مشکل میں جو کام آئے تھے سب کے سب بیگانے لوگ
مجھ پر عشق میں کیا کیا بیتی جان سکے تو مدت تک
خون جگر سے لکھتے رہیں گے میرے ہی افسانے لوگ
دل کا جام احساس کی مے جذبات کا نشہ کم تو نہیں
افتاں خیزاں حیرت ہے کیوں جاتے ہیں میخانے لوگ
پاؤں کی زنجیر بجی لو موسم گل بھی آ ہی گیا
دیر نہ ہو اے ذوق جنوں آباد کریں ویرانے لوگ
مخمور نگاہی کا اپنے اے ساقئ مہوش دیکھ اثر
تیری نظر کے سامنے کتنے توڑ گئے پیمانے لوگ
ایسی کتنی غزلیں لکھ کر برقؔ نے ضائع کر ڈالیں
اک دو غزل پر اب تو شاعر لگتے ہیں کہلانے لوگ