شکوہ اغیار کا ہے میرے سنانے کے لئے

شکوہ اغیار کا ہے میرے سنانے کے لئے
چاہئے روز نئی چھیڑ ستانے کے لئے


سرمہ سا جو مجھے آنکھوں میں جگہ دیتے تھے
آج آئے ہیں وہ مٹی میں ملانے کے لئے


کاش دم بھر کو پلٹ آئے حیات رفتہ
میری میت پہ وہ آئے ہیں جلانے کے لئے


کنج زنداں میں ادھر ہم ہیں ادھر موسم گل
آ گیا اور بھی دیوانہ بنانے کے لئے


سینۂ مہر میں سوزش ہے دل ماہ میں داغ
آفت جاں ہے غم عشق زمانے کے لئے


نورؔ جب جانوں خیال ان کا جگا لے مجھ کو
موت آئی ہے مجھے آج سلانے کے لئے