پھر چھوٹ گیا ہاتھ سے دامان تمنا
پھر چھوٹ گیا ہاتھ سے دامان تمنا
پھر لوٹ لیا بخت نے سامان تمنا
پھر جم گیا ویرانے کا نقشہ مرے گھر میں
تاراج ہوا پھر سر و سامان تمنا
ہر سمت اندھیرا ہے نظر کچھ نہیں آتا
گل ہو گئی پھر شمع شبستان تمنا
مدت سے ہے اک موج تہہ آب سی دل میں
اب جوش پہ آتا نہیں طوفان تمنا
سوچا کئے آئے گی کبھی فصل بہاری
مرجھا گیا آخر چمنستان تمنا
ساقی ہے نہ صہبا ہے نہ ساغر نہ سبو ہے
برہم ہوئی وہ بزم خمستان تمنا
طوفان کی موجوں کے کرم پر ہے سفینہ
ہے خالق عالم ہی نگہبان تمنا
جیتے ہیں فقط موت کی امید پہ اے نورؔ
دفتر میں نہیں زیست کے عنوان تمنا