پھر کھنچ گئی اچانک ہمدم کمان تقدیر

پھر کھنچ گئی اچانک ہمدم کمان تقدیر
آئے دل حزیں پر جور و ستم کے پھر تیر


غیروں سے جب ملے ہم اپنا بنا کے چھوڑا
اور کر سکے نہ اس کو کرنا تھا جس کو تسخیر


اوروں کے چاک قسمت ہم نے رفو کئے تھے
اور سی سکے نہ اپنا افسوس چاک تقدیر


اس درجہ سوئے ظن ہے ہر بات دل شکن ہے
لائے کہاں سے ہر دن اک دل نیا بہ دلگیر


پاس وفا ہمارا مہر دہن بنا ہے
کس طرح ہو سکے گی احوال دل کی تفسیر


آزاد کب تھی بلبل جو دام میں پھنسی اب
صیاد خود رگ گل تھی اس کے حق میں زنجیر


کیوں سرخ ہو رہی ہیں پھر تیلیاں قفس کی
اے اشک خوں نیا گل شاید کھلائے تقدیر


آیا جو در پہ مجرم رحمت نے اس کو بخشا
کیا قابل معافی اپنی نہیں تھی تقصیر